اسلام آباد: پاکستان کے شہر ملتان میں واقع پنجاب نشتر ہسپتال کی چھت سے 500 لاشوں کا ڈھیر لگا ملا ۔ بتایا جا رہا ہے کہ ہسپتال کی چھت سے ملنے والی تمام لاشوں کے ٹکڑے کر دیے گئے ہیں۔ ان لاشوں سے اعضا بھی غائب ہیں۔ کچھ لاشوں کے سینے کھلے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے، البتہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یا تو یہ لاشیں انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں یا انھیں طبی استعمال کے لیے استعمال کیا گیا ہو گا۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ان لاشوں کو طبی تجربات کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ ان تمام لاشوں پر پہلے ہی طبی تجربات کیے جا چکے ہیں۔ ایک رپورٹ میں لاشوں کی تعداد صرف 7 بتائی گئی ہے۔ اس کیس کا چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ کالج انتظامیہ نے اندرونی وضاحت دی ہے کہ یہ لاشیں پاکستانی شہریوں کی نہیں ہیں بلکہ میڈیکل کالجوں میں تعلیم فراہم کرنے کے لیے بھارتی کشمیر سے درآمد کی جاتی ہیں۔
میڈیکل کالج کے کچھ طلبا کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لاشیں برآمد ہوئی ہیں وہ کسی پاکستانی شہری کی نہیں بلکہ بھارتی کشمیر کے قبرستانوں سے چوری کروا کر مگوائی گئی تھیں۔ ایک لاش پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قدامت پسندی کی وجہ سے لاشیں نہیں ملتی اور نہ ہی لوگ تعلیم کے لیے لاشیں عطیہ کرتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کے مشیر چوہدری زمان گرجر نے پنجاب نشتر ہسپتال کا دورہ کیا اور معاملے کی تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں