نسرین شکرمی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکام نے ان کی بیٹی نیکا کی موت کو نو دن تک چھپائے رکھا اور پھر خاندان کی خواہش کے خلاف ایک دور دراز علاقے میں تدفین کے لیے لاش مردہ خانے سے لے گئے۔ حجاب مخالف مظاہروں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوگوار والدہ نے یہ باتیں امریکی امداد سے چلنے والے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے فارسی زبان کے بازو ریڈیو فردا کو ایک ویڈیو پیغام میں کہیں۔
نیکا شکرمی ایران میں مظاہروں کی نئی علامت بن گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکام کی جانب سے نوجوان لڑکی کی موت کو حادثہ قرار دینے کی کوششیں اس تشویش کی علامت ہوسکتی ہیں کہ یہ واقعہ حکومت کے خلاف غصے کو ہوا دے سکتا ہے۔ ہفتہ کو احتجاج کا چوتھا ہفتہ شروع ہوا۔
ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد حجاب مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پولیس نے امینی کو ملک کے سخت اسلامی لباس کوڈ کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ لڑکیاں اس مظاہرے کی قیادت کر رہی ہیں اور اس دوران وہ اپنا حجاب اتار کر یا پھاڑ کر اپنے احتجاج کا اظہار کر رہی ہیں اور موجودہ حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں میں متعدد مظاہرین مارے جا چکے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں