پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس عمارت کو محفوظ ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا ہے، لیکن اہلکار شاید ہی کبھی اس کو دیکھنے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے متعدد بار رقم مختص کی گئی ہے لیکن اس کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ حویلی کے اطراف کا پورا علاقہ غیر قانونی دکانوں سے مچھلی منڈی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
غورطلب ہے کہ پاکستان نہ صرف سلامتی کے محاذوں پر بھارت کے ساتھ ایک چیلنج کھڑا کر رہا ہے بلکہ بھارت سے جڑے ثقافتی ورثے کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاریخی ورثے کی حالت زار اس کی زندہ مثال ہے۔ لاہور میں مہاراجہ شیر سنگھ کی تاریخی بارہ دری پہلے ہی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی آبائی حویلی کا ایک بڑا حصہ بھی منہدم ہو گیا ہے۔
معلومات کے مطابق گوجرانوالہ کی حویلی کی نچلی منزل (جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پیدائش ہوئی تھی) میں ملک کی تقسیم کے بعد کئی سال تک پولیس تھانہ چلتا رہا۔ اسی وقت حویلی کے عقب میں 9-10 بیت الخلا بنائے گئے تھے۔ یوں تو کچھ وقت پہلے تھانے کو حویلی سے ہٹایا گیا تھا لیکن خراب بیت الخلا اور ان کے باہر پڑی گندگی نہیں ہٹائی گئی۔
اس کے بعد آس پاس کے گھروں اور دکانوں کے لوگوں نے یہاں کچرا پھینکنا شروع کردیا۔ گوجرانوالہ کی پرانی سبزی منڈی میں موجود اس حویلی میں وہ چٹان آج بھی موجود ہے جس پر انگریزی اور اردو میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پیدائش 13 نومبر 1780 کو کندہ ہواہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں